غزہ کی عارضی بندرگاہ کے منصوبہ پر شکوک و شبہات
امریکی صدر بائیڈن غزہ کے ساحل پر ایک عارضی بندرگاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ علاقے کو امداد پہنچائی جا سکے
یاد رہے کہ اسرائیل کی ناکہ بندی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ہے اور فلسطینیوں کے لیے خوراک کی کمی کو سنگین بنا رہی ہے
تاہم ناقدین بائیڈن کے منصوبے کو محض پبلک ریلیشن کے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور بحران سے نمٹنے کے لیے مزید فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں
امکان ہےکہ بندرگاہ کی تعمیر میں دو ماہ لگیں گے
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے جوش روبنر سمیت ماہرین خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی پر زور دے رہے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ بھوک سے مرتے ہوئے فلسطینی بندرگاہ کی تعمیر کے لیے 45 سے 60 دن کا انتظار نہیں کر سکتے
دریں اثنا رشیدہ طلیب اور کوری بش سمیت ترقی پسند قانون سازوں نے بائیڈن کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران اسرائیل کی حمایت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے
وہ مستقل جنگ بندی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کے لیے طویل مدتی حل کی وکالت کرتے ہیں
اس خطاب کو فلسطین کے حامی مظاہروں کی وجہ سے تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے بائیڈن کے راستے میں رکاوٹ ڈالی
ان مظاہروں سے اسرائیل-فلسطین جنگ سے متعلق بائیڈن کی پالیسیوں پر امریکہ کے اندر وسیع پیمانے پر عدم اطمینان ظاہر ہوتا ہے