معاشرتی اور معاشی مسائل میں گھرے افغانیوں کا رمضان کا جذبہ ماند پڑگیا
افغانستان میں رمضان عام طور پر ہمدردی اور جشن کا وقت سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے سنگین انسانی بحران کے درمیان بھوک اور غربت حد سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے شہری رمضان کی خوشیوں میں شریک ہونے سے قاصر ہیں۔
دوسرے مسلمان ملکوں میں عام طور پرعام افطاریوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن افغانستان کے شہری رمضان اور عید کی خریداری کرنے کی بجائےزندہ رہنے کی جدوجہد میں مبتلا ہیں۔ وسیع پیمانے پر افغان شہری صرف سوکھی روٹی اور پانی پر گزارا کر رہے ہیں۔
کئی سال پر محیط امریکی قبضے کے اختتام کے بعد جب طالبان حکومت نے 2021 میں حکومت سنبھالی تو افغانستان میں انے والی بین الاقوامی امداد روک لی گئی جس کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال بہت بگڑ گئ-اس مسلسل بڑھنے والی معاشی تباہی نے لاکھوں افراد کو امداد کی ضرورت میں ڈال دیا ہے- تقریباً 40 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں 30 لاکھ سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔
ہمسایہ ملک پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی نے بہت سارے خاندانوں کے لیے پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں اور رمضان نہیں منا پا رہے
بین الاقوامی پابندیوں اور امداد میں کٹوتیوں نے امدادی سرگرمیاں متاثر کر دی ہیں، جبکہ طالبان کی زیر قیادت حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
قدرتی آفات اور پناہ گزینوں کی آمد نے افغانستان کی حالت زار کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جس سے رمضان کے تہواروںمیں وہ جوش و خروش نہیں رہا اور پہلے سے ہی سنگین صورتحال مزید گمبھیر ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ نے 10 مارچ کو کہا کہ اس سال افغانستان کے تقریباً 24 ملین افراد کو زندگی بچانے کے لیے بنیادی امداد کی ضرورت ہے۔