فلسطینی قیدیوں کا دن: اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ
فلسطینی اسیران کے دن کے موقع پر، رپورٹوں میں اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران کی تعداد میں پریشان کن اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔
پچھلے سال 7 اکتوبر کے بعد سے، قیدیوں کی تعداد میں 130 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
ایک فلسطینی اہلکار نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر سے قبل اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 5000 تھی۔
غزہ میں فلسطینی میڈیا کے دفتر نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران محاصرہ شدہ علاقے سے 5000 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار غزہ کے تمام قیدیوں کو شامل نہیں کرتا جنہیں جبری گمشدگی کا سامنا ہے۔
حراست میں لیے گئے افراد کی مختلف تنظیموں نے بتایا ہے کہ قیدیوں میں 80 خواتین اور 200 سے زائد بچے شامل ہیں۔
اپریل کے اوائل تک انتظامی قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 3,660 ہو گئی ہے، جن میں 22 خواتین اور 40 بچے شامل ہیں۔
انتظامی نظربند ان لوگوں کو کہتے ہیں، جن پرکسی بھی جرم کا کوئی الزام نہیں اور انہیں شک کی بنا پر احتیاطی طور پر سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔انتظامی نظربندی کی کوئی معیاد طے نہیں ہے۔
قیدیوں اور سابق قیدیوں کے امور کی اتھارٹی کے سربراہ قدورا فاریس نے گھروں پر چھاپوں سے شروع ہونے والے منظم تشدد اور حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے حالات کو “تباہ کن” قرار دیا۔
اس موسم سرما میں قیدیوں کو مناسب لباس اور کمبل سے محروم دیکھا گیا۔
فلسطینی ہر سال 17 اپریل کو فلسطینی اسیران کا دن مناتے ہیں۔ اس دن کو فلسطینی قومی کونسل نے 1974 میں اپنایا تھا۔
اس دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا، کیونکہ اس دن فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے پہلے معاہدے کے تحت پہلے فلسطینی قیدی محمود بکر حجازی کی رہائی عمل میں آئ تھی۔