اسرائیل کی طرف سے غزہ میں رمضان المبارک کی مبارکباد دینے والے کتابچوں کی تقسیم، شہریوں میں شدید غم و غصے کی لہر
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر رمضان کے کتابچے چھوڑنے سے غم و غصہ پھیل گیا ہے، جسے فلسطینیوں نے “نفسیاتی اذیت” کی ایک نئ شکل سے تعبیر کیا ہے۔
یہ اقدام، بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے درمیان، ستم ظریفی کی ایک سوچی سمجھی ترکیب ہے۔ قحط کے بیچ یہ کتابچہ شہریوں سے ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے کی تاکید کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
اکتوبر سے لے کر اب تک پانی کی کمی اور غذائی قلت کے نتیجے میں 20 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، اسرائیل کی طرف سے امداد اور ضروری اشیاء کی کٹوتی کی وجہ سے اس میں شدت آئی ہے۔
ناقدین نے غزہ پر مسلط بحران میں اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کتابچے کو غیر حساس قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی۔
پیر سے رمضان شروع ہونے کے ساتھ، غزہ کے 20 لاکھ فلسطینیوں کو شدید غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے آنے والے قحط کے بارے میں خبردار کیا ہے، جس میں 500,000 سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ خوراک کی شدید قلت پوری آبادی کو متاثر کر رہی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے یہ پہلی ایسی کارروائی نہیں ہے، جو کشیدہ ادوار کے دوران بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس قسم کے ہتھکنڈے تباہی کے درمیان شدید ذہنی اذیت اور نفرت کا باعث بنتے ہیں ۔